تعارف

تمام تعریفیں اس ذات کے لے جو وحدہ لاشریک اور قادرِ مطلق ہے اور درود و سلام اس ہستی پر جس کے بارے میں شاعر نے کیا ہی خوب کہا ہے کہ
؎ بعدازخدا بزرگ توئی قصہ مختصرصلٰی اللہ علی النبی الاُمّی۔ بعدہُ

جیسا کہ حدیث شریف میں ہے:

من لم یشکرالناس لم یشکر اللہ
جس نے بندوں کا شکریہ ادا نہیں کیا اس نے اللہ تعالیٰ کا بھی شکرادا نہیں کیا

لہٰذ اگر بندہ اپنے شیخ و مربی عارف باللہ حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب مدظلہ العالی کا ممنونِ احسان نہ ہو تواس سے بڑی ناشکری اور کیا ہو گی جبکہ بندہ روحانی طور پر مردہ تھا، اس مسیحائے وقت ہی نے حیات نو عطا کی اور ذرۂ ناکارہ کو اپنی شعاعِ بصیرت سے چمکا دیا۔ بندےکے تمام کے تمام اشعار اس آفتابِ جہاں تاب کی لازوال کرنوں سے مستفاد ہیں۔ جیسا کہ ناچیز نے عرض کیا کہ:

؎ساقی تری نگا ہ کا صدقہ ہے کیفِ جام
مستی ترے بغیر نہ نعرہ ترے بغیر

یہ صرف شاعری نہیں بلکہ ایسے حقائق ہیں جن کا ادراک بغیرتجربےکے ناممکن ہے، بقول حضرت مجزوبؔ ؒ :

؎ جس قلب کی گرمی نے دل پھونک دیئے لاکھوں
اس قلب میں یا اللہ کی آگ بھری ہوگی

پیشِ نظر ویب سائٹ جو کہ آپ کے سامنے ہے ،اس میں بندے کے کچھ ایسے اشعاربھی شامل ہیں جوشاعری کے ابتدائی دورکے ہیں اور اگرچہ ہلکے پُھلکے ہیں مگر ان کی افادیت کے پیشِ نظرانہیں اس سائٹ کی زینت بنایا گیا ہے۔ اس کے تقریباً سب ہی اشعار بہت زیادہ بھاری بھرکم نہیں ہیں بلکہ عام فہم ہیں،جن حضرات نے رومیِ ثانی عارف باللہ حضرتِ اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب مدِ ظلہ العالی کی مجالس میں شرکت کی ہو وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ حضرتِ اقدس اس کا کس قدر اہتمام فرماتے ہیں کہ آسان سے آسان اردو میں لوگو ں تک بات پہنچائی جائے یہاں تک کہ بعض دفعہ کسی خادم نے کہا کہ داڑھی ایک مشت رکھنی چاہیئے تو حضرتِ و الا نے فرمایاکہ مشت کامطلب بتاؤبلکہ مٹھی کہو نیز جب بھی کسی نے اشعارکے دوران بت کا لفظ استعمال کیاتوشاید ہی کبھی ایسا ہوا ہو کہ حضرت نے نہ فرمایا ہو کہ بت کے معنی بتاؤیعنی فانی حسین یا حسینہ پھر اس کی بھی تشریح کرو کہ عورت حسین ہو یانہ ہو اس کی طرف تو مطلق نظر جائز نہیں امردیعنی وہ لڑکے جن کی داڑھی مونچھ نہ آئی ہو یا اگرچہ آبھی گئی ہو مگراس کی طرف میلان ہوتا ہو تووہ بھی امرد یعنی بت کے حکم میں ہے، بعض مرتبہ ان الفاظ کو تین بار دہرانے کاحکم ہوتا ہے تاکہ یہ باتیں لوگوں کے دلوں میں اترجائیں۔ اس طرح کی بے شمار مثالیں موجود ہیں لہٰذ ہ حضرتِ اقد س کی تعلیمات کی روشنی میں ناچیز کا نقطۂ نظر شاعری کے بارے میں بھی یہی ہے کہ وہ اتنی آسان ہو کہ ہر خاص وعام کو سمجھ میں آسکے کیونکہ اکثر عوام کو شعراء سے یہ شکوہ رہا ہے کہ (مگر ان کا کہا یا آپ سمجھیں یا خدا سمجھے) اور جب کوئی چیز سمجھ ہی نہ آئے تو کوئی پڑھے کیونکر ، اور غالباً یہی وجہ ہے کہ ہمارے کالج ویونیورسٹی کے بیشتر اعلیٰ تعلیم یافتہ طلبہ شعرو سخن سے نابلد ہیں بلکہ اگر کہا جائے کہ متنفر ہیں تو مبالغہ نہ ہو گا۔

لہٰذہ ناچیز نے انہیں وجوہ کی بنا پرنطیر آکبر آبادی کی پیروی کر تے ہوئے ایسے الفاظ بھی استعمال کئے ہیں جو بظاہر سوقیانہ (بازاری) محسوس ہوتے ہیں مگر جس مجبوری اور ضرورت کا ذکرمندرجہ بالا عبارت میں کیا جا چکا اس سے واضح ہے کہ بندے کا مقصود یہ ہے کہ ہر خاص وعا م با آسانی ان اشعار کو سمجھ سکے کیونکہ سمجھنے کے بعد ہی عمل کی توقع کی جاسکتی ہے ۔ لیکن یاد رہے کہ یہ اشعار اگر چہ پڑھنے میں آسان محسوس ہوں مگر لکھے اتنی آسانی سے نہیں گئے ہیں ،میں سچ عرض کروں کہ ان اشعار میں صرف دردِ دل ہی نہیں بلکہ میرا خونِ جگربھی شامل ہے لہٰذہ اسے سرسری انداز سے نہ پڑھیں بلکہ کسی مخلص کی فریاد سمجھ کر اس پر غور کریں اور اس کے بعد عمل کی کوشش کریں کہ یہی اس ویب سائٹ کا مقصد ہے۔

اللہ تعالیٰ مجھ سمیت تمام مسلمانانِ عالم کو اپنی مرضیات پر چلنے کی تو فیق عطا فرمائےاور اس ویب سائٹ کے جملہ معاونین کو جزائے عظیم عطا فرمائے اور اس ناچیز کے لئے ان اشعار کو ذخیرۂ آخرت بنائے۔

( آمین)

شاہین اقبال اثرؔ عفی اللہ عنہ